
امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ سے 93 افراد قتل
غزہ،21جولائی(ہ س)۔ غزہ میں شہری دفاع سے متعلق ادارے نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوج نے انسانی بنیادوں پر خوراک کے حصول کے لیے آنے والے بے گھر فلسطینیوں پر فائرنگ کر کے اتوار کے روز مزید 93 فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے۔ جبکہ اس فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔ان میں سے آٹھ فلسطینیوں کو اس وقت شمالی غزہ میں ہلاک کیا گیا جب ٹرکوں پر وہاں امدادی سامان اور خوراک پہنچی۔ جبکہ نو افراد کو فائرنگ کر کے رفح کے علاقے میں ہلاک کیا گیا۔خوراک کے حصول کے لیے آنے والوں میں موت بانٹنے کا یہ واقعہ رفح کے جنوب میں پیش آیا۔ اس سے محض چوبیس گھنٹے پہلے بھی درجنوں فلسطینیوں کو اسی علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔شہری دفاع کے ادارے کے ترجمان محمود باسل کے مطابق چار بھوکے اور قحط زدہ فلسطینیوں کو خان یونس میں قائم کیے گئے امدادی مرکز کے نزدیک فائرنگ سے ہلاک کیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے ' اے ایف پی ' کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ' ورلڈ فوڈ پروگرام' نے کہا اس کے 25 ٹرک خوراک لے کر آئے تو ان کا سامنا بہت بڑے ہجوم سے ہوا۔ یہ ہجوم بھوک سے بے حال ہو چکے فلسطینیوں کا تھا۔ یہ ہجوم جیسے ہی اسرائیلی فوج کی چیک پوائنٹس سے آگے آیا تو اس پر فائرنگ کھول دی گئی۔ یہ واقعہ غزہ سٹی کے نزدیک پیش آیا۔اسرائیلی فوج نے اس موقع پر بھی اپنے مو¿قف میں وہی بتایا کہ اس کے فوجیوں کو اتنے بڑے ہجوم سے خوف ہوا کہ یہ اس پر حملہ نہ کر دیں کہ یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ اس لیے فوجیوں نے انتباہی فائرنگ کی۔انسانی حقوق سے متعلق مبصرین یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلاءنہ ہوا تو اس طرح کے ہزاروں افراد کے ہجوم تو صبح و شام غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو نظر آئیں گے تو کیا پھر اسی طرح جب چاہے گی جس پر چاہے گی اسرائیلی فوج فائرنگ کرتی رہے گی۔کیونکہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کا اس طرح خوراک کے حصول کے دوران لقمہ اجل بن جانا تو اب غزہ کی ہر روز کی خبر بنتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے انہیں فائرنگ کی زد میں لانے کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ اس طرح امداد کے لیے بنائے گئے یہ مراکز فلسطینی قحط زدہ بے گھر شہریوں کے لیے موت کے مراکز ثابت ہو رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے اب تک ان امدادی مراکز پر 800 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔غزہ شہر میں 36 سالہ قاسم ابو خاطر نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ وہ امدادی مرکز سے آٹے کا تھیلا لینے کے لیے گیا لیکن آٹا پانے کے بجائے اس کو ایک ہزاروں شہریوں پر مشمتل ایسے ہجوم کا سامنا کرنا پڑا جو خوراک کے لیے بہت بے یقینی اور پریشانی میں بوکھلایا ہوا لگ رہا تھا۔ یہ ہزاروں افراد تھے۔ جو دھکم پیل کا شکار ہو رہے تھے۔ کہ اس دوران اسرائیلی فوج کے ٹینک ہم پر گاہے گاہے گولہ باری کرتے رہے۔ جبکہ نشانہ باز فوجی فائرنگ کر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا ان کے سامنے فلسطینی کوئی انسان نہ ہوں بلکہ جنگلی مخلوق ہوں جسے جس طرح چاہیں نشانہ بناتے رہیں۔ اس دوران درجنوں فلسطینیوں کو قتل کر دیا گیا۔ عالمی پروگرام برائے خوراک نے شہریوں کو اس طرح امداد اور خوراک دینے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا جواب گھڑا گھڑایا ہے کہ اس کے فوجیوں کو خوف محسوس ہوا۔ اس لیے انہوں نے انتباہی فارنگ کی تھی۔کیتھولک فرقے کے سے بڑے اور معتبر عہدے دار پوپ لیو نے اتوار کے روز مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو اب ختم کر دیا جائے۔ ان کا یہ مطالبہ غزہ میں مسیحی برادی کے گرجا گھر پر اسرائیلی فوج کے تازہ حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جس پر انہوں نے اتوار کے روز اپنے گہرے کرب کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا 'میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھے اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ نیز شہریوں کو بلا امتیاز دی جانے والی اجتماعی سزا کا سلسلہ روکا جائے اور جبری نقل مکانی کا خاتمہ کیا جائے۔