
عصرِ جدید کی ایک فکری صدا روحانیت کی روشنی میں مجلہ ’’الکوثر‘‘
پرویز عالم مدیر اعلیٰ: مولانا محمد ملک الظفر سہسرامی صفحات: ایک سو قیمت: درج نہیں ملنے کا پتا: دارالعلوم خیریہ نظامیہ سہسرام (بہار ) 821115 رابطہ 7050055786 E.mail alkausersasaram@ gmail.com www.alkasarsasaram.blogpost.com مبصر: پرویز عالم مجلہ ’’الکوثر‘‘ کا تازہ شمارہ مطالعے کی میز پہ میرے روبرو ہے۔ ’’الکوثر‘‘ محض ایک مذہبی و ادبی رسالہ نہیں بلکہ ایک ایسا فکری آئینہ ہے جو ماضی کی روحانی قدروں کو حال کے پیچیدہ مسائل کے ساتھ مربوط کرتا ہے، یہ ایک نظریاتی و روحانی دعوت ہے، جس میں عصرِ حاضر کے مسائل بھی ہیں اور ازلی صداقتوں کی بازگشت بھی۔ یہ وہ صحیفہ ہے جو ماضی کے درخشاں ورثے کو حال کی ضرورتوں کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور مستقبل کے لیے ایک راہ روشن کرتا ہے۔اس میں ادب، اخلاقیات، عصریات، عالمی مسائل اور حالات حاضرہ سب ایک مربوط کڑی کی طرح جمع ہیں۔ سرورق کی زبان تصویر سے زیادہ بلیغ ہے۔ اس پہ فلسطین کے مظلوموں کی داستان خونچکاں نقش ہے۔ مسجدِ اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کے سنہری گنبد گویا ان کے سر پہ سایۂ رحمت بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سائبان کے نیچے معصوم صفت بچوں کی چیخیں، ماں کی سسکیاں، یتیموں کی آنکھوں سے ٹپکتی بے بسی اور شہیدوں کا لہو بول رہا ہے۔ ہر رنگ، ہر لکیَر اور ہر عکس مظلوموں کی فریادوں کا ترجمہ نگار محسوس ہوتا ہے۔ مظلوموں کی فریادیں اور ان کی آہ و بکا سر ورق پہ بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ سرورق محض ایک نقش نہیں بلکہ ایک پکار ہے، ایک صدا ہے جو قاری کے دل کو بر انگیختہ کر دیتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو- اس شمارے کی ابتداء عشق و عقیدت کے سرچشموں سے کی گئی ہے۔ اعلیٰ حضرت کی حمد اور نعتیہ تخلیقات ساتھ ہی مولانا قمر شاہ جہاں پوری اور محسن جلگانوی کے نعتیہ کلام اس شمارے کی مذہبی و ادبی فضا کو روحانیت سے بھر دیتے ہیں۔ یہ انتخاب واضح کرتا ہے کہ ’’الکوثر‘‘ کا نقطۂ آغاز عشق الٰہی اور محبت رسول ﷺ ہے جو پورے شمارے کا مرکزی مزاج متعین کرتا ہے اور قاری کے دل میں وہ کیفیت پیدا کرتا ہے جو بندگی اور عشقِ رسول ﷺ کی بنیاد ہے۔ تقدیم کے تحت ’’روحانیت کی روشنی میں عصر جدید کی ایک فکری صدا‘‘ کے عنوان سے مدیر اعلیٰ مولانا ملک الظفر سہسرامی نے جو اداریہ تحریر کیا ہے وہ شمارے کا فکری محور ہے، یہ تحریر محض تمہید نہیں بلکہ پورے شمارے کی فکری سمت کی وضاحت بھی ہے۔ مذہبیات کے تحت مولانا عطا حسن نعیمی کا مضمون ’’اخلاص نیت: بندگی کا سر چشمہ‘‘ قاری کو عملی دینداری کی بنیادوں کی طرف متوجہ کرتا ہے، یہ حصہ عملی ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحی رنگ بھی رکھتا ہے جو مذہبیات کی اصل روح ہے، اس میں امت کے لیے ایک پیغام ہے کہ عملی دینداری کی اساس و بنیاد اخلاص ہے۔۔ یقیناً اس قسم کے مضامین بندگی کی عملی تصویر واضح کرتے ہیں اور شمارے کو محض علمی یا فکری نہیں بلکہ عملی اور تربیتی گوشہ عطا کرتے ہیں۔ شخصیات کے گوشے میں ’’صبح ولایت کا ظہور‘‘ اور ’’علم و وقار کا مینار بلند‘‘جیسی تحریریں اس بات کی علامت ہے کہ ’’الکوثر‘‘ شخصیات کے ذریعے فکر و عمل کے چراغ روشن کر رہا ہے، یہ تحریریں محض تعارف نہیں بلکہ تاریخ کے زندہ اور بولتے ہوئے اوراق ہیں جنہیں موجودہ نسل کے روبرو بطور آیڈیل رکھا جا رہا ہے یہ مضامین نہ صرف بزرگوں کی سیرت و احوال اجاگر کرتے ہیں بلکہ کردار و سیرت کی تجسیم ہیں جو یقیناً نئ نسلوں کے لیے عملی نمونہ فراہم کرتے ہیں ۔ یہاں شخصیات کی ذریعے فکری ورثے کو زندہ کیا گیا ہے۔ تعقبات کے تحت مفتی شمشاد حسین رضوی کا مضمون ’’یہاں تو کام بن جائے گا کچھ شکل ریائی سے‘‘ نہایت بصیرت افروز اور خود احتسابی پہ مبنی مضمون ہے جو قاری کو ظاہری اور باطنی تضادات پہ غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ادبیات میں ’’مولانا سید مظفر حسین کچھوچھوی کا عشق رسول: نسیم حجاز کی روشنی میں‘‘ عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو سے معطر ہے اور’’اردو زبان: ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ یہ مضمون اردو کے تہذیبی و لسانی پہلوؤں پہ ایک بصیرت افروز تجزیہ ہے۔ مضمون نگار نے اس میں جہاں اردو کے ادبی سفر، اس کے تمدنی پس منظر اور تہذیبی کردار اجاگر کیے ہیں، وہیں ایک اہم نکتہ مدارس کے ساتھ برتے جانے والے متعصبانہ رویے پہ سخت اور دوٹوک تنقید بھی ہے۔ یہ پہلو خاص طور پہ قابلِ ذکر ہے کہ اردو کی اصل بقا اور ترویج میں مدارس کا کردار بنیادی رہا ہے، لیکن جدید ذہن بعض اوقات اس ورثے کو کم تر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مضمون میں اس غیر متوازن طرزِ فکر کا مدلل اور سخت زبان میں رد کیا گیا ہے۔ یہ جرأت مندانہ تنقید اردو زبان کے تہذیبی دفاع کا ایک اہم حصہ ہے اور اسی پہلو نے مضمون کو محض ایک لسانی جائزے سے بڑھا کر تہذیبی معرکہ آرائی کی حیثیت دے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا مطالعہ قارئین کو اردو کے ماضی و حال دونوں پہ غور کرنے پہ مجبور کرتا ہے۔ ’’الکوثر‘‘ کا یہ گوشہ نہ صرف ادب اور دین کا حسین امتزاج کا عکس بیان کرتا ہے، بلکہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ’’الکوثر‘‘صرف دینی مجلہ نہیں بلکہ ادبی اور تہذیبی ذوق کا بھی ترجمان ہے۔ عشق رسول ﷺ اور زبان و تہذیب کے باہمی رشتے یہاں نہایت سلیقے سے پیش کیے گئے ہیں۔ اخلاقیات و ادب الاطفال کے تحت ’’حقوق العباد: خدا کی زمین پہ بندگان خدا کا حق‘‘ مولانا امتیاز احمدامجدی ’’شاہین صفات‘‘ حافظ رضی الدین ’’معاف کرنے والا فنکار‘‘ ڈاکٹر فیضان حسن یہ مضامین سماجی تربیت اور بچوں کے اخلاقی و فکری ارتقاء پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ گوشہ والدین ، اساتذہ اور نئی نسل سب کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں یہ مضامین ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دین کی اصل روح انسانوں کے باہمی تعلقات اور نئی نسل کی درست تہذیب و تربیت میں پوشیدہ ہے۔ ’’اسلامی معاشیات اور جدید بینک کاری نظام‘‘مفتی شمشاد حسین رضوی ’’عالمی مسائل میں امام احمد رضا کا کردار‘‘مولانا رحمت اللہ صدیقی ’’ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا‘‘پرویز عالم (راقم) یقیناً یہ مضامین عصری تقاضوں کو دین کی روشنی میں پرکھنے کی کاوش ہیں۔امام احمد رضا کا کردار عالمی پس منظر میں رکھنا خاص طور پہ اس شمارے کی فکری گہرائی ظاہر کرتا ہے۔یہ مضامین قارئین کو وقت کے اہم مباحث میں لے جاتے ہیں۔ عصریات اور عالمی مسائل کے عنوانات اس شمارے کو صرف خانقاہی و علمی نہیں بلکہ عملی اور بیدار صحافت کا آئینہ بناتے ہیں۔ چاہے وہ اسلامی معاشیات اور جدید بینک کاری کی بحث ہو یا فلسطین و ہسپانیہ کے تاریخی و سیاسی سوالات یقیناً اس شمارے کو موجودہ عالمی پس منظر میں ایک زندہ اور بیدار صدا بناتے ہیں اور’’الکوثر‘‘ ان سب پہ ملت کے ضمیر کی ایک مضبوط آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ نوادرات کے تحت ’’شہید وفا ‘‘ علامہ کامل سہسرامی رحمۃ اللہ علیہ اور’’نوادرات رضا‘‘ مفتی شمشاد حسین رضوی یہ حصہ تحقیقی تاریخی ذوق رکھنے والےقارئین کے لیے پیش قیمت تحفہ ہے۔ ’’جمہوریت، مذہبی منافرت اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت‘‘ مولانا محمد ملک الظفر سہسرامی ’’وقف ترمیمی بل :مذہبی آزادی اور شرعی اقدار پہ حملہ‘‘ مولانا محمد ملک الظفر سہسرامی ’’انتخابات: ملی شعور کے امتحان کا وقت‘‘ پرویز عالم حالات حاضرہ کے تحت شامل یہ مضامین ایک واضح سیاسی و سماجی بیداری کے نمائندہ ہیں یہ وہ پہلو ہے جو’’الکوثر‘‘ کو محض خانقاہی و روحانی نہیں بلکہ عملی اور قومی ترجمان بھی بناتا ہے اور قاری کو نہ صرف سیاسی بصیرت عطا کرتے ہیں بلکہ موجودہ حالات کے خطرات بھی واضح کرتا ہے۔ ان تحریروں میں ایک عملی اور انقلابی صدا ہے جو ملت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یقیناً یہ گوشہ ملت کے حساس ترین سوالات کو اجاگر کرتا ہے: جمہوریت کے پردے میں مذہبی منافرت کی حقیقت، وقف ترمیمی بل کی شکل میں مذہبی آزادی پہ حملے، اور انتخابات کے موقع پہ ملی شعور کا امتحان۔ یہ تحریریں ملت کے رہنماؤں اور عوام دونوں کے لیے چشم کشا ہیں۔ تبصرے کے گوشے میں ڈاکٹر طاہرہ انعام کی تحقیقی کتاب ’’اٹھارویں صدی میں اردو نعت‘‘ پہ مولانا عبد المتین کا وقیع اور بصیرت افروز تبصرہ شامل ہے۔ یہ تحریر شمارے کی علمی وقعت میں نمایاں اضافہ کرتی ہے۔ دراصل یہ ایک تحقیقی تنقیدی مطالعہ ہے جو قاری کو نہ صرف کتاب کے مندرجات سے روشناس کراتا ہے بلکہ اردو نعتیہ شاعری کے عہدِ اوّل کے ادبی و فکری پس منظر پہ بھی روشنی ڈالتا ہے۔ نوادرات، تاثرات اور پیغامات اس علمی سفر کو مزید روحانی و ذاتی رنگ عطا کرتے ہیں۔ یہ شمارہ ایک جامع فکری سرمایہ ہے جس میں روحانیت کی روشنی بھی ہے، ادب و زبان کی تہذیبی خوشبو بھی، عصر حاضر کی معیشتی و سیاسی آگہی بھی اور ملت کے مستقبل کے لیے رہنمائی بھی ۔اس میں ایک ہم آہنگ توازن نظر آتا ہےجو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کی ہمہ جہت فکر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ’’الکوثر‘‘ کا تازہ ترین شمارہ بلا شبہ ہمارے عہد کی ضرورتوں کا جواب ہے، جو دین، ادب، تاریخ اور سیاست سب کو ایک لڑی میں پروکر ملت کے لیے رہنمائی کا چراغ جلا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’’الکوثر‘‘ کا یہ شمارہ قاری کے دل و دماغ کو نہ صرف تازگی بخشے گا بلکہ اس کے ایمان، فکر اور عمل کے لیے بھی جِلا بخش ثابت ہوگا۔