موہن بھاگوت کا حالیہ بیان: یہ کبھی کبھی عنایت ہے بمنزل سیاست
سیف اللہ فہمی ندوی ڈائریکٹر: بریلینٹ انٹرنیشنل اسکول کھیری بانکا ،بسفی مدھوبنی ،بہار رابطہ:9065834323 آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا حالیہ بیان کہ “جب سے اسلام بھارت میں آیا ہے تب سے ہے اور رہے گا" ایک طرف بظاہر مثبت اور رواداری پر مبنی دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے اندر کئی ایسے پہلو ہیں جو اس ملک کےمسلمانوں کے لیے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح کے بیانات دراصل محض الفاظ کا کھیل ہوتے ہیں، جن کا مقصد دنیا کو دکھانا ہوتا ہے کہ آر ایس ایس ایک اعتدال پسند اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی تنظیم ہے، جبکہ عملی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہندوستان کی سرزمین پر مسلمان کوئی نئی قوم نہیں ہیں۔ یہ یہاں کے مٹی کے سپوت ہیں۔ ساتویں صدی سے ہی مسلمان یہاں آ کر آباد ہوئے اور رفتہ رفتہ ہندوستانی سماج کا ایک لازمی حصہ بن گئے۔ دلی سلطنت سے لے کر مغل دور تک، انہوں نے صرف حکمرانی نہیں کی بلکہ فن تعمیر، ادب، موسیقی، کھانے پینے اور زبان تک میں اپنی چھاپ چھوڑی۔ آج کی ہندی اور اردو زبانیں، جنہیں کروڑوں لوگ بولتے ہیں، اسی مشترکہ تہذیب کا نتیجہ ہیں۔ مسلمانوں نے نہ صرف تہذیبی ورثہ دیا بلکہ زراعت، صنعت اور تجارت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ٹیپو سلطان نے برطانوی سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے جان قربان کی۔ بہادر شاہ ظفر کو جلاوطنی کا دکھ سہنا پڑا۔ اشفاق اللہ خان نے پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبدالغفار خان، حکیم اجمل خان جیسے رہنما آزادی کی تحریک کے ستون رہے۔ یہ سب مثالیں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان اس ملک کے مالک و وارث ہیں، محض مہمان نہیں۔ ایسے میں جب کوئی کہتا ہے کہ “مسلمان رہیں گے ہی” تو یہ جملہ گویا ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ موہن بھاگوت کا بیان سننے میں یقین دہانی سا لگتا ہے لیکن اس کے پس پردہ نفسیاتی دباؤ پوشیدہ ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان اس لیے رہ سکتے ہیں کیونکہ اکثریت اجازت دے رہی ہے۔ یہ رویہ کسی مساوی شہری کے نہیں بلکہ بالادستی کے رشتے کی عکاسی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مالک مکان اپنے کرایہ دار سے کہے کہ “تم رہو گے ہی” تو یہ جملہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ اس کے رہنے کا حق مالک کی مرضی سے وابستہ ہے۔ یہی منطق مسلمانوں پر لاگو کر کے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے جڑی تنظیموں کے کئی بڑے رہنما اور وزراء کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ کبھی انہیں "گھس پیٹھیا" کہا گیا، کبھی "پاکستان جانے" کا طعنہ دیا گیا، کبھی "زیادہ بچے پیدا کرنے" کا الزام لگا کر بدنام کیا گیا۔ کیا کبھی ان بیانات پر کوئی سخت کارروائی ہوئی؟ جواب صاف ہے: نہیں۔ بلکہ کئی بار ایسے رہنماؤں کو انعام کے طور پر وزارت یا پارٹی کا بڑا عہدہ دیا گیا۔ سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) اور این آر سی کی بحث نے مسلمانوں کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایک پورے طبقے کو مشکوک شہری بنا کر کاغذوں کی سیاست میں الجھانے کی کوشش کی گئی۔ تین طلاق کے معاملے کو سیاسی مفاد کے لیے اچھالا گیا۔ مدارس کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اور اب یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ کر پھر ایک بار مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں موہن بھاگوت کے الفاظ محض دکھاوے کے سوا کچھ نہیں لگتے۔ ہندوستان کا آئین سب شہریوں کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ اس میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مسلمانوں کا رہنا یا نہ رہنا کسی اکثریتی گروہ کی خوشنودی پر منحصر ہے۔ آزادی کے وقت ہی یہ طے ہو چکا تھا کہ ہندوستان سب کا ملک ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ، جین سب برابر کے شہری ہیں۔ لہٰذا کسی تنظیم کے سربراہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کرے۔ یہ حق صرف اور صرف آئین ہند کے پاس ہے۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسلمانوں کو بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے زیادہ تر ہندوستانی مسلمان اسی مٹی کے قدیم باشندوں کی اولاد ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کی جڑیں اسی دھرتی میں پیوست ہیں۔ ان کی قبریں، ان کے مزار، ان کے کھیت، ان کی مساجد، ان کے آثار سب اسی سرزمین پر ہیں۔ ان کے بغیر ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب ادھوری ہے۔ اگر واقعی موہن بھاگوت کا بیان خلوص پر مبنی ہوتا تو آر ایس ایس اپنی پالیسیوں اور بیانیے میں بنیادی تبدیلی کرتی۔ مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ان کی خدمات کو تسلیم کیا جاتا۔ مگر جب ایک طرف یقین دہانی دی جائے اور دوسری طرف نفرت کی سیاست جاری رہے تو یہ دوہرا رویہ صاف نظر آتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے رہنے کے لیے کسی کی اجازت درکار نہیں۔ وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ ان کا وجود اس دھرتی سے اتنا ہی گہرا جڑا ہوا ہے جتنا کسی اور کا۔ "مسلمان رہیں گے ہی" کہنا کوئی احسان نہیں بلکہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ ایسے بیانات جمہوریت اور بھائی چارے کو کمزور کرتے ہیں، جبکہ ہندوستان کی طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے۔ ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب ہر شہری خود کو برابر اور باعزت محسوس کرے گا۔